Posts

 ‏ہم وہ کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر میں کیا تھا! (یہود خیبر کو نہیں بھولے آپ بھول چکے ) کیا آپ جنگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ مضمون کو آخر تک پڑھیں!! خیبر کے قلعوں میں پناہ لینے والے یہودی کھانے پینے کا سامان لے کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے منتظر تھے۔ خیبر کے قلعے ایک ٹھوس، اونچی جگہ پر تھے۔ اگر آپ نے تیر مارا تو وہ آپ کے پاس واپس آجائے گا۔ اگر تم پتھر بھی پھینکو تو وہ ان تک نہیں پہنچے گا۔ اگر آپ چیخیں گے تو آپ کی آواز آپ تک نہیں پہنچے گی۔ خیبر تباہ نہیں ہوا۔ خیبر فتح نہیں ہوا تھا۔ اسلامی فوج کئی دن محاصرہ کیےانتظار کرتی رہی۔ لیکن یہودیوں نے قلعے نہیں چھوڑے۔ مسلمانوں کا ذخیرہ اور ان کے حوصلے ختم ہونے والے تھے۔ پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حکمت عملی تیار کی۔ کھجور کے درخت کاٹے جائیں گے۔ خیبر کے یہودیوں کی معیشت ایک ایک کر کے منقطع ہو جائے گی۔ ان کی قسمت ٹوٹ جائے گی۔ ان کا مستقبل اکھڑ جائے گا۔ کیونکہ یہودیوں کے لیے پیسہ، دولت اور خوشحالی سب کچھ تھا۔ جیسے جیسے درخت کاٹے گئے، یہودی تباہ ہو گئے۔ درختوں کے کٹ جانے کے بعد یہاں رہنے کا ک...
 پاکستان میں غریب کی زندگی کے تلخ حقائق ؟ سال میں دو کپڑے خرید کر گزارا کرے گا جوتے ٹوٹ بھی گئے 6 مہینے پھر بھی نکال لے گا ؟ گاؤں میں رہتا ہے تو مہینے میں صرف ایک چکر شہر کا لگائے گا شہر میں ہے تو تین چار کام کرکے گزاراہ کر رہا ہے ؟ رشتے داروں سےملنے عید پر بھی نہیں جائے گا کیونکہ 1500 دو ہزار رشتے دار کے بچوں کو عید دے گا جو کہ وہ خود قرض پر گزار رہا ہے ؟ ڈیلی سبزی دو کلو کی بجائے ایک کلو خریدے گا پیاز اور گھی کے بغیر بھی ہانڈی پکے گی سالن نہیں تو مرچ کھا کر بھی چلے گا ؟ سال بعد کسان کی گندم کاٹ کر دانے آکٹھے کرے گا پیسے بچ گئے تو اچھا کھانا کھا لے گا یا قرض دے دے گا ؟ اکثر اوقات موبائل کے پیکج کے پیسے بھی نہیں ہونگے ؟ بجلی کا بل گیس کا بل دے کر جیب میں 10 روپے بھی نہیں ہونگے ؟ بیٹیوں کی شادی کیلئے ساری عمر جہیز اکٹھا کرنے پیٹ کاٹ کر تعلیم پڑھانے پر لگ جائے گی ؟ ؟؟؟ غریب ہونا کوئی جرم نہیں پاکستان واحد ملک ہے جو غریب کو سر اٹھانے ہی نہیں دیتا ہر ترقی یافتہ ملک کا قانون ہے کہ غریب بھی اپنی محنت سے امیر ہوسکتا ہے لیکن پاکستان وہ ملک ہے جہاں حرام کھانے والوں نے حلال کھانے والوں کا جی...
 اشفاق احمد اور میاں نظام دین ریڈیو پر پروگرام پیش کیا کرتے تھے ، ایک دن اشفاق احمد نے پوچھا کہ یار سنا ہے بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے اور بڑا نقصان کیا ہے ۔ میاں نظام دین نے جواب دیا ، ہاں ، میرا کوئی ڈیڑھ مرلہ کماد لگا ہوا تھا ، وہ تباہ ہو گیا ہے ۔  اسرائیل کا تو اتنا سا نقصان بھی نہیں ہوامگر ہمارے دوست ایران کو ہر حال میں فاتح قرار دے رہے ہیں ،
 ایک درد دل رکھنے والے استاد کا دردناک اور حقیقت پر مبنی میسج۔ آپ سب کی توجہ کے لیے۔  سر  برائے مہربانی کوئی بھی پولیسی بنائیں تو اس میں خیال کیجیے گا کہ وہ پولیسی ٹیچر فرینڈلی نہ ہو بلکہ چائلڈ اور پیرنٹ فرینڈلی ہو ۔  سرکاری ٹیچرز کو پہلے ہی بہت سے حقوق حاصل ہیں جس کی وجہ سے ٹیچرز کام نہیں کرتے تو سرکاری ادارے پرائیویٹ سیکٹر سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔  تین ماہ موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ 25 دن ٹیچرز کی اپنی سال کی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ موسم سرما اور عید اور دوسری چھٹیاں ملا کے ٹیچرز صرف چھ ماہ کام کرتے ہیں۔ چھ ماہ بھی کام پورا دن نہیں کرتے جبکہ سیلری پورے سال کی لیتے ہیں۔  اگر آپ سرکاری اداروں کو بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ تو ٹیچرز یونین کی بات ہرگز نہ سنیں بلکہ ہیڈ ٹیچرز اور والدین اہل علاقہ سے مشاورت کریں ۔ ایسی پالیسی بنائیں جو چائلڈ فرینڈلی اور پیرنٹ فرینڈلی ہو ۔   ان اقدامات سے پرائمری اور المنٹری ٹیچرز یونین کو ضرور اعتراض ہوں گا ۔ لیکن ان اقدامات سے سرکاری ادارے بہتر ہوں گے ۔ والدین کا سرکاری اداروں پر اعتماد بڑھے گا ۔ سرکاری اداروں میں بچوں کی ...
 معروف روسی مصنف و ناول نگار Leo Tolstoy “لیو ٹولسٹائی” نے ایک دن غلطی سے کسی کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیا.  اُس شخص نے خوب گالیاں دیں،  جب وہ خاموش ہوا تو ٹولسٹائی نے احتراما سر سے کیپ اتار کر معذرت کی اور کہا کہ میں ٹالسٹائی ہوں.  وہ شخص شرمندہ ہوا اور کہا کہ  کاش آپ پہلے اپنا تعارف کروا دیتے.  ٹولسٹائی نے کہا کہ آپ اپنا تعارف کروانے میں بہت مصروف تھے اس لئے مجھے موقع ہی نہیں ملا.  نوٹ: کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ بھی اپنا تعارف کروانے میں جلدی کر جاتے ہیں!
 مشتاق احمد یوسفی صاحب لکھتے ہیں.  میں آفس میں آتے ہی ایک کپ چائے ضرور پیتا ہوں. اُس روز ابھی میں نے پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اطلاع ملی کوئی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں.  میں نے کہا: بھجوا دیجیئے. تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شلوار قمیض پہنے، گریبان کے بٹن کھولے، گلے میں کافی سارا ٹیلکم پاؤڈر لگائے، ہاتھوں میں مختلف قسم کی مُندریاں اور کانوں میں رِنگ پہنے ہوئے ایک نیم کالے صاحب اندر داخل ہوئے. سلام لیا اور سامنے بیٹھ گئے،اُن کا ڈیل ڈول اچھا تھا اسلیئے میں نے خود کو قابو میں رکھا اور آنے کا مقصد پوچھا. اُس نے محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا، پھر ٹیبل پر آگے کو جھک کر بولا.."میں بھی ایک مراثی ہوں".  میں بوکھلا گیا،کیا مطلب؟ وہ تھوڑا قریب ہوئے‏ اور بولے..."مولا خوش رکھے، میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا، سنا ہے آپ بھی میری طرح، میرا مطلب ہے آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں". میں نے جلدی سے کہا، ہاں لیکن میں مراثی نہیں ہوں. "اچھی بات ہے"...وہ اطمینان سے بولے. "میں نے بھی کبھی کسی کو اپنی حقیقت نہیں بتائی". میرا خون کھول اٹھا،عجیب آدمی ہو تم، تمہیں...
 شہد کے چھتے میں جب کوئی مکھی مرتی ہے تو موت کے ساتھ ہی اس کے جسم کا ٹمپریچر گر جاتا ہے. یہ ایک اعلان ہوتا ہے یہ اپنی طاقت کھو چکی ہے. دوسری مکھیوں کو ابھی اس کی موت کی اطلاع نہیں ہوتی. کیونکہ عام مکھیاں گلنے سڑنے کا عمل شروع ہونے پر جسم جو بو چھوڑتا ہے اس پر جان پاتی ہیں کہ کوئی مکھی مر چکی ہے. لیکن اسی چھتے میں کچھ مکھیاں گورکن مکھیاں ہوتی ہیں. وہ طاقت کھو دینے کے لمحے کو محسوس کر سکتی ہیں. ان مکھیوں کا کام چھتے کی صاف صفائی اور صحت مند ماحول ہوتا ہے. کوئی مکھی اگر گلنے سڑنے کے عمل میں داخل ہو جائے تب مکھی نکال بھی دی جائے چھتے پر اثرات رے جاتے ہیں. اس لئے گورکن مکھیاں طاقت کھو دینے کے اعلان پر ہی اس مکھی کو اٹھا کر چھتے سے نیچے گرا دیتی ہیں. ہم اپنے معاشرے کو اگر چھتہ سمجھ لیں تو ہمارے بچے بچے کو اب پتہ ہے ہم طاقت اور قوت کھو چکے ہیں. گلنے سڑنے کا عمل شروع ہے. کسی معاشرے کا اہل دانش طبقہ اس کے ماحول کی ضمانت ہوتا ہے. جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے دانش کے دعویدار طبقہ کا ردعمل پھر ہمیں بتاتا ہے کیوں کر ہم زوال کی اس پستی میں گر چکے ہیں. ہمارے چھتے میں اب اہل دانش نہیں رہے. یہ عام ل...